“میں زیادہ سکول نہیں گیا، سب کچھ غور کرنے اور دنیا کے تجربات سے سیکھا ہے۔“
سرائیکی زبان و ادب کے عہد ساز شاعر شاکر شجاع آبادی سے آدھی ملاقات
شاکر شجاع آبادی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ ان کی شاعری نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ ان کے مداحوں کی تعداد اب ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ وہ جب شعر پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہزاروں کے مجمعے پر خامشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے۔ سامعین ان کے کلام کو گوش جاں سے سنتے ہیں اور چشم قلب سے قرات کرتے ہیں۔ قدرت کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کا منفرد کرشمہ ہے کہ ایسا شحص جو نہ لکھنا جانتا ہو اور نہ بول سکتا ہو، وہ دکھی انسانوں کے درد کے پیغام سے دنیا کو آشنا کردے، یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ شاکر شجاع آبادی کو سرائیکی زبان کا شیکسپیئر اور انقلابی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں امریکی یونیورسٹی کی طرف سے گارڈ فادر آف سرائیکی پوئیٹری کے خطاب سمیت درجنوں ایوارڈز مل چکے ہیں اور ان کا کلام ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بطور نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ شاکر شجاع آبادی وہ خوش قسمت شاعر ہیں جنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے دو بار پرائڈ آف پرفارمنس کا اعزاز دیا گیا جبکہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایک بلاک کو ان سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پِلاک کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ حالیہ دنوں میں شاکر شجاع آبادی صاحب علالت کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و تندرستی سے نوازے۔ اس ماہ روشنی میگزین میں اپنے سلسلے ‘آدھی ملاقات’ کے لیے ہم نے شاکر شجاع آبادی کا انتخاب کیا ہے۔ مختلف اخبارات و جرائد میں دی گئیں معلومات کی مدد سے ترتیب دیا گیا ان کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
روشنی میگزین: شاکر صاحب! روشنی میگزین کے لیے اپنا قیمتی وقت دینے کا شکریہ۔ سب سے پہلے آپ اپنی تاریخ پیدائش، خاندانی پس منظر اور تعلیم کے حوالے سے ہمارے قارئین کو آگاہ کیجیے۔
شاکر شجاع آبادی: میرا تعلق شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں چاہ ٹبے والا سے ہے جو ملتان سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسی علاقے میں میری پیدائش 25 فروری 1955 کو سیال فیملی میں ہوئی۔ میرے والدین نے میرا نام محمد شفیع رکھا تاہم میں نے شاعری میں اپنا تخلص شاکر رکھا اور شجاع آباد کی نسبت سے شجاع آبادی میرے نام کا حصہ بن گیا۔ غربت کے باعث زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا اور چھٹی جماعت میں ہی سکول چھوڑ دیا۔
روشنی میگزین: آپ کا بچپن کیسے گزرا؟
شاکر شجاع آبادی: غربت کے باعث میرا بچپن محرومیوں میں گزرا۔ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے سبزی بیچی، منڈی میں کام کیا، دکان داری اور چوکیداری بھی کی۔ بچپن میں مجھے سائنس دان بننے کا شوق تھا لیکن غربت آڑے آ گئی۔ مگر کچھ نہ کچھ خواب یوں پورا ہوا ہے کہ لوگ میرے کلام پر پی ایچ۔ ڈی کر رہے ہیں۔
روشنی میگزین: آپ کی شادی کب ہوئی؟
شاکر شجاع آبادی: میری شادی 1991ء میں شبنم شاکر سے ہوئی، یہ کزن میرج تھی۔ میرے تین بچے ہیں، دو بیٹے نوید اور ولید اور ایک بیٹی ثانیہ شاکر، میری اہلیہ بھی مشاعروں میں اپنا کلام پڑھتی رہی ہیں، ان کی شاعری کی ایک کتاب بھی منصہ شہود پر آئی۔
روشنی میگزین: شاعری کا آغاز کب کیا؟
شاکرؔ شجاع آبادی: میں نے 1986ء میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ 1989ء تک میں ایک گم نام شاعر رہا۔ 15 مارچ 1989ء کو میں نے پہلی مرتبہ سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور کے مشاعرے میں شرکت کی۔ پہلی مرتبہ مشاعرے میں حسین بخش حسنیؔ نے سٹیج پر شور مچا دیا تھا کہ ایک شاعر ابھی رہتے ہیں ان کو بھی سنا جائے۔ اس وقت مجھے اپنا کلام سنانے کے لیے دو منٹ کے لیے اجازت ملی۔ تاہم جب میں نے اپنا کلام شروع کیا تو یہ دو منٹ 35 منٹ پر محیط ہو گئے۔
روشنی میگزین: آپ کے پہلے مشاعرے کی صدارت کس نے کی تھی؟ اس مشاعرے کے حوالے سے اپنی کچھ یادیں شیئرز کریں گے؟
شاکر شجاع آبادی: مشاعرے کی صدارت اوچ شریف سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ عظیم سرائیکی شاعر جانباز جتوئی کر رہے تھے۔ میں اس وقت پچیس یا چھبیس برس کا نوجوان تھا۔ جس طرح ایک نوجوان کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح مجھے ڈائس پر پہلے بلایا گیا، جب کہ جانباز جتوئی، پُرفیض، پُرسوز جیسے بڑے ناموں اور دیگر کو مشاعرے کے آخر میں وقت دیا جاتا تھا تاکہ ہجوم برقرار رہے۔ جب میں نے لحن کے ساتھ اپنے اشعار پڑھنا شروع کیے تو مشاعرے کے شرکاء نے جوش کے ساتھ میرا خیرمقدم کیا۔ جب میں نے اپنے اشعار ختم کیے تو جانباز جتوئی اسٹیج پر آئے اور اعلان کیا کہ مشاعرہ ختم ہو گیا ہے۔ (اس کا مطلب تھا کہ شاکر کے بعد پڑھنے کے لیے کچھ نہیں باقی بچا ہے۔)
روشنی میگزین: آپ کو یاد ہے کہ اپنے اس پہلے مشاعرے میں آپ نے کون سا کلام پڑھا تھا؟
شاکر شجاع آبادی: میرے لیے عام آدمی کی محبت ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ میں نے اپنی شاعری میں معاشرے کے مظلوم طبقات اور محبت کرنے والوں کی تنہائی پر بات کی ہے۔ میں پاکستان کا واحد شاعر ہوں جسے ادب کے شعبے میں گراں قدر خدمات پر دو مرتبہ حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا ہے۔ اس وقت میرا کلام اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور، بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے نصاب میں شامل ہے۔ مجھے امریکی یونیورسٹی کی طرف سے گارڈ فادر آف سرائیکی پوئیٹری کے خطاب سمیت درجنوں ایوارڈز مل چکے ہیں۔
توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
توں ڈیوا بال تے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سکدا
چمن آباد رکھ باد صبا جانے خدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بے کار نئیں ویندی
دعا شاکر توں منگی رکھ دعا جانے خدا جانے