علم وہ جو عمل سے ظاہر ہو

مظہر حسین سہو (ملتان)

عمل کے بغیر علم کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اسلام میں علم کی بڑی اہمیت ہے اور جہالت موت کے مترادف ہے ۔ایک مشہور قول بھی ہے کہ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا ۔ انسانیت نے اپنی تاریخ میں کسی مذہب کو بھی اسلام کی طرح تعلیم کو اہمیت دیتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ علم انسان کو حق و باطل کی تمیز سکھاتا ہے۔  وہ علم بے  کار ہے جو عمل کے بغیر ہو ۔ علم کی وجہ سے ہی انسان کو سماج میں اعلی مقام ملتا ہے۔  انسان جتنی بھی بڑی بڑی تعلیمی ڈگریاں حاصل کر لے لیکن اچھی اور پروقار شخصیت اس کے عمل سے ہی ظاہر ہوگی۔ ہمارے ہاں بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم صرف ڈگری کے حصول کو علم کہتے ہیں۔  ہمارے  معاشرے میں قابل اور پڑھا لکھا انسان  اسے سمجھا جاتا  ہے   جس کے پاس ڈگری ہو۔ اس بات سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا کہ علم حاصل کرنے کے بعد ہی ڈگری ملتی ہے لیکن ہمارا وہ علم صرف اور صرف ڈگری کے لئے ہوتا ہے عمل کے لئے نہیں۔  اگر آپ کسی کو کہیں کہ ایف اے کر لو تو جواب ملتا ہے ایف اے کر کے کیا کروں گا؟ پھر ہمارا جواب ہوتا ہے کہ کچھ نہ کرنا لیکن ڈگری تو مل جائے گی ۔

دنیا میں دو طرح کے علم ہوتے ہیں۔  ایک وہ جو آپ کی ڈگری سے ظاہر ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو آپ کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔  اب دوسری قسم کے علم میں کچھ ڈگری والے بھی شامل ہوتے ہیں جن کا عمل ان کی ڈگری کی تصدیق کرتا ہے۔ ایسا علم جو عمل سے محروم ہو وہ بے کار ہوتا ہے۔  اگر ہم نے کچھ جان لیا تو اس کا اظہار عمل سے کرنا ضروری ہے ۔ چھوٹی سی مثال سے وضاحت کروں گا  کہ اگر ہم نے جان لیا کہ پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے تو پانی بیٹھ کر پینا چاہیے ، اگر اس کے باوجود ہم کھڑے ہو کر پانی پیتے ہیں تو ہم بے علم ، بے عمل اور بے عقل سمجھے جائیں گے۔  ان ساری باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ علم عمل کا نام ہے ۔

ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں  کہ علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو تقسیم کرنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے ۔ اگر آپ کے بتائے ہوئے علم پر کسی نے عمل کرلیا تو اس کو ثواب تو ملنا ہی ہے لیکن آپ کو بھی اس کا اجر ملے گا۔ لیکن عملی زندگی میں ہم اس کا خیال ہی نہیں رکھتے ۔ جھوٹ بولنا بری بات ہے لیکن ہم کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں،  دھوکہ دیتے ہیں،  ملاوٹ کرتے ہیں ، فراڈ کرتے ہیں،  بڑوں کا احترام نہیں کرتے ، بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش نہیں آتے،  یہ سب چیزیں ہیں جو عمل کے بغیر ناممکن ہیں ۔ ایسی بہت سی باتیں ہیں جو ہم سنتے  اور کہتے ہیں لیکن ہم ان پر عمل نہیں کرتے ۔ جب ہم علم پر عمل نہیں کرتے تو ہمارے علم کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے ہماری نصیحتیں بے کار ہو جاتی ہیں ہم جو کچھ پڑھاتے ہیں وہ پڑھنے والوں پر اثر نہیں کرتا۔ اس  کی مثال ایک واقعہ سے پیش کرنا  چاہوں گا ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور عرض کیا: اے امیر المومنین ! میرا بیٹا گڑ بہت کھاتا ہے آپ اس کو گڑ کھانے سے منع فرمائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا کہ اسے کل میرے پاس لے آنا۔ اگلے دن وہ عورت دوبارہ اپنے بچے کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ تب حضرت عمر فاروق  رضی اللہ  عنہ نے بچے سے فرمایا : بیٹا ! گڑ کم کھایا کرو۔  عورت نے عرض کی کہ اے امیر المومنین ! میں اتنا سفر کرکے واپس گئی پھر دوبارہ سفر کرکے آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ آپ یہی نصیحت کل بھی اس بچے کو فرما سکتے تھے ، آپ نے آج دوبارہ آنے کا کیوں حکم دیا ۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ کل میں نے خود گڑ کھایا ہوا تھا ۔ 

جو کام ہم نے خود کیا ہوا ہے اگر دوسرے کو منع کریں گے تو یہ بھی گناہ کی  ایک قسم ہے۔ علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں ۔  علم عمل کے لیے ایندھن کا کام کرتا ہے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ علم کا الاؤ روشن رہے تو اس میں عمل کا تیل ڈالتے رہیں اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی روشنی ماند پڑ جائے گی۔

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
311