قرۃ العین صدیقی (لودھراں)
انتخابات کرائے جائیں جی، سٹوڈنٹ کونسل کے انتخابات۔ ارے یہ کیا؟ سٹوڈنٹ کونسل کے انتخابات؟ یوں کہیے ناں کہ یونین بنانے چلے ہیں۔ یہ وہ پہلا سوال تھا جو تقریباً ہر سننے والے کے ذہن میں آیا۔ طلبہ کی یونین تو ہوتی ہے یہ کونسل کیسے بنے گی؟ یہ اصطلاح تو ہم پہلی مرتبہ سن رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ آج تک کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح پر عام طور پر یہ الیکشن ہوتے رہے ہیں اور زیادہ تر یہ یونینز تخریب کاری اور دھڑے بندیوں میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کونسل کی تشکیل کا مقصد طلبہ کو گروپس میں تقسیم کرنا نہیں بلکہ محنتی اور لائق طلبہ کو اس قابل بنانا ہے کہ جو اپنے بہترین طرز عمل اور اچھے رویے کے ذریعے باقی طلبہ کے لیے نہ صرف رول ماڈل بن سکیں بلکہ نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں صف اول میں رہ کر اپنا کردار بھی نبھا سکیں۔
اگلی صبح سکول اسمبلی میں جب طالبات کو بتایا گیا کہ ان کے انتخابات کروائے جا رہے ہیں تو ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہر طالبہ کی یہ خواہش تھی کہ اسے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جائے مگر پالیسی کے مطابق سکول کی سب سے زیادہ سینئر تین جماعتوں میں سے ٹاپرز کا انتخاب کیا گیا۔ الیکشن کمشنر اور الیکشن ٹربیونل کی تقرریوں کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ انتخابی عملے کو ان کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والی طالبات نے کاغذات نام زدگی جمع کروائے۔ جن کی منظوری کے بعد تین گروپس تشکیل دیے گئے۔ ہمارے سکول میں چونکہ جماعت ششم تا دہم صرف طالبات زیر تعلیم ہیں اس لیے ہشتم، نہم اور دہم جماعت سے طالبات نے کاغذات نام زدگی جمع کروائے۔
انتخابی مہم چلانے کا مرحلہ سب سے دلچسپ ثابت ہوا۔ ہر سکول کی سطح پر تین گروپس تشکیل دیے جا چکے تھے۔ ہمارے سکول میں بھی شاہین، اتحاد اور آزاد کے نام سے تین گروپ تشکیل دیے گئے۔ تمام سکولوں کے طلباء و طالبات جوش و ولولے سے اپنے پسندیدہ امیدواروں کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ کہیں پر طلبہ کم خرچ بالا نشین کے مقولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اپنے انتخابی نشانات، رنگین پوسٹرز اور چارٹس بنا رہے تھے تو کہیں پرانے گتے کے ڈبوں پر رنگ برنگ دیدہ زیب کور چڑھا کر بیلٹ باکس بنائے گئے۔ کچھ تعلیمی اداروں نے تو باقاعدہ پرنٹنگ پریس کا سہارا لیتے ہوئے پینافلیکس اور بیلٹ پیپرز بنوائے۔
دو روز میں ہی تمام سکینڈری اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کی دیواریں اور ستون دیدہ زیب انتخابی چارٹس اور پوسٹرز وغیرہ سے سج گئیں۔ ہر طرف طالب علم کارکنان اپنے اپنےگروپ کے امیدواروں کو جیتوانے کے لیے عام طالبات کو متحرک کرنے لگیں۔ کہیں تو صدارت کی امیدوار نے مفت مہندی لگوانے کی لالچ بھی دی کہ ہمیں ووٹ دیجیے اور مفت مہندی لگوائیے۔ لڑکیاں چونکہ مہندی لگوانے کی شوقین ہوتی ہیں تو انہیں یہ لالچ بھی اچھا لگا۔ کہیں کسی امیدوار نے کہا کہ ہمیں ووٹ دیں، ہم آپ کا پیغام سربراہ ادارہ تک پہنچائیں گے۔ کہیں مفت میں ٹیوشن پڑھانے کی ترغیب بھی دی گئی۔ الغرض ہر گروپ نے زیادہ سے زیادہ ووٹ بینک بنانے کے لیے مختلف حکمت عملی اپنائی۔
طالبات کا جوش و خروش، کچھ نیا سیکھنے کا جذبہ، خوشی سے دمکتے چہرے، ایک نئی سرگرمی جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی، ان کے نعروں اور چہروں سے جھلکتی تھی۔ ہر گروپ کا جوش دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ شاید یہ ہی انتخاب جیت جائے گا۔ انتخابات سے پہلے کی رات تمام امیدواروں کے لیے بھاری تھی۔ ان کے لیے ایک ایک لمحہ جیسے ایک ایک صدی کی طرح گزر رہا تھا ۔ سب کے دل دھڑک رہے تھے کہ جانے کل کی صبح کیا نتیجہ لے کر آئے گی۔ خدا خدا کر کے رات کٹی اور تین نومبر کی وہ روشن صبح آن پہنچی جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا۔
ٹھیک نو بجے پولنگ کا آغاز ہوا۔ پولنگ کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ تمام ووٹرز کے پاس ب فارم موجود ہو۔ پولنگ شروع ہونے سے پہلے انتخابی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کو خالی بیلٹ باکس کا معائنہ کروایا گیا۔ پھر سب کے سامنے اسے ٹیپ لگا کر سربمہر کیا گیا۔ کچھ اداروں میں تو طالبات نے پولیس کی وردیاں پہن کر سکیورٹی کے فرائض بھی سر انجام دئیے۔ ووٹرز لسٹوں پر ووٹر کے ب فارم کا اندراج کر کے اسسٹنٹ پریزائڈنگ افسر نے اپنے دستخط ثبت کیے اور ووٹرز کے انگوٹھوں پر سیاہی کا نشان بھی لگایا گیا۔ ایک طرف ووٹ ڈالنے کا عمل جاری تھا تو دوسری طرف امیدواروں کے دلوں کی دھڑکنیں اوپر نیچے ہو رہی تھیں۔ کچھ امیدوار تو تسبیح پکڑ کر دعائیں کرتی بھی نظر آئیں۔
تقریباً ایک بجے کے قریب پولنگ ختم ہوئی تو ووٹوں کی گنتی کے مرحلے کا آغاز ہوا۔ پریزائڈنگ افسر نے دیگر عملے کے ساتھ مل کر نتیجہ مرتب کیا اور آخرکار وہ گھڑی آن پہنچی جب فیصلے کا اعلان ہونا تھا۔ الیکشن کمشنر نے فیصلے کا اعلان کیا تو جیتنے والی امیدواروں کی خوشی دیدنی تھی۔ ایک طرف خوشی سے نعرہ بازی ہو رہی تھی تو دوسری طرف ہارنے والی امیدوار افسردہ نظر آئیں۔ تب ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے تمام امیدواران اور ان کی حامیوں کو اکٹھا کر کے کہا کہ جیت اور ہار زندگی کا حصہ ہے۔ سب کو چاہیئے کہ وہ کھلے دل سے انتخابی نتائج کو قبول کریں اور باہم مل کر سکول کے لیے مفید ثابت ہوں۔
اس طرح ایک پرجوش مہم کا اختتام ہوا جس کا سہرا سیکریٹری تعلیم جنوبی پنجاب ڈاکٹر احتشام انور کے سر ہے، جنہوں نے ایک ہی روز جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع میں سٹوڈنٹ کونسلز کے انتخابات کا انعقاد کروا کے یہ ثابت کیا کہ
ارادے جن کے پختہ ہوں،نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے