اس یوم سیاہ کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے

بتول  رانی  (لودھراں)

مورخہ 16 دسمبر 2014 ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ایک ایسا  الم ناک سانحہ پیش آیا جس میں کتنی ہی قیمتی معصوم جانیں  اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر نظریں جمائے ایک لمحے کے لیے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ پاکستانی معاشرے کے دستور کے مطابق ہر دن صبح روشن کا وقت ہماری مائیں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے میں صرف کرتی ہیں۔ گھر سے رخصت ہوتے وقت ماتھا چومنا، گلے ملنا، نازک پھولوں کو پیار سے دعا دینا ہوتا ہے جو یا عموما ًخدا حافظ یا اللہ حافظ کے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ تو کیا ان معصوم جانوں کے لیے اللہ حافط کے الفاظ ہی اس دن قبول ہوئے ہوں گے؟ اللہ حافظ کے الفاظ کو اپنے ساتھ لیے وہ گھر کے دروازے سے سکول کی چار دیواری میں اور پھر سکول کی چار دیواری سے جنت میں داخل ہو گئے۔

بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے ہر ماں ان کی واپسی پر ان کی وردی پہ سیاہی کے داغ لگے ہونے کی امید تو لگاتی ہے لیکن کوئی بھی ماں خون میں لت پت وردی دیکھنے کی امید نہیں لگاتی۔ لہو کے سرخ رنگ سے لت پت وہ معصوم شہید جب والدین کے سامنے لائے گئے ہوں گے تو ان کے لیے وہ سرخ رنگ سے بھرا دن ضرور یوم سیاہ ہو گا اور 16 دسمبر 2014ء کا یہ یوم سیاہ ناقابل فراموش سانحہ کے طور پر یقیناً یاد رہے گا اور پھر اس موضوع پر لکھتے وقت میرے دل و دماغ میں چند الفاظ بار بار گردش کرتے رہے جو میں ان شہید پھولوں کے نام کرتی ہوں۔

تمہارا خون شامل ہے چمن سیراب کرنے میں

تمہاری اس وفا کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے

زمین کے پھول تھے تم اب فلک پر ٹمٹماتے ہو

تمہاری اس ادا کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے

دعائیں ماں کی ہمراہ تھیں حوالے ہو گئے رب کے

تو ماں کی اس دعا کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے

دسمبر لوٹ آتا ہے مگر تم آ نہیں پاتے

تو اس “یوم سیاہ “کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
596
2