محمد عمر صدیق( میلسی)
ایک آدمی کو مٹی کھانے کی بہت بری عادت تھی۔ اسے جب بھی موقع ملتا، وہ مٹی کھانے سے باز نہ آتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ چینی خریدنے کے لیے دکان پر گیا اور دکان دار سے چینی مانگی۔ دکان دار نے کہا کہ میرے پاس چینی تو بہت بہترین قسم کی ہے لیکن میرے باٹ مٹی کے ہیں، میرے پاس لوہے کے باٹ نہیں۔ مٹی خور نے کہا کہ مجھے چینی کی ضرورت ہے باٹ کی نہیں، باٹ چاہے لوہے کے ہوں یا مٹی کے، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن دل ہی دل میں مٹی خور بہت خوش ہو رہا تھا کہ مجھے یہاں پر بھی مٹی کھانے کا موقع ملے گا۔ دکان دار نے باٹ ترازو کے پلڑے میں رکھے اور خود چینی لینے دکان کے اندر چلا گیا۔ اس دوران مٹی خور نےموقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلدی سے ایک باٹ اٹھا کر دانتوں سے تھوڑی سی مٹی کترلی۔ مٹی بہت چکنی اور مزے دار تھی۔ اس نے دوسرا باٹ اٹھایا اور اس سے بھی تھوڑی سی مٹی کتر کر جیب میں رکھ لی کہ راستے میں کھاتا جاؤں گا۔ مٹی خور کی اس حرکت کو دکان دار نے دیکھ لیا اور مسکرا کر دل ہی دل میں کہنے لگا: اور کھا لے، نقصان تو تیرا ہی ہو رہا ہے کہ چینی کم وزن کے ساتھ تمہیں ملے گی۔ دوسری طرف مٹی خور بھی اپنی جگہ خوش تھا کہ اس نے چینی پوری وصول کی ہے اور دکان دار کے باٹ کی مٹی بھی تھوڑی چکھ لی ہے۔