سعدیہ رستم (ملتان)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں شدیدقحط سالی پیدا ہوگئی ، جس سے لوگ بھوکے پیاسے مرنے لگے۔ اس ملک میں چند مسلمان بھی رہتے تھے۔ اس ملک سے چند سو میل کے فاصلےپر ایک کنواں تھا۔ اس ملک کا بادشاہ جب بھی اپنے کسی وزیر یا غلام کو کنویں پر بھیجتا تو وہ واپس نہ آتا بلکہ ان کی لاشیں واپس آتی تھیں۔ روزبروز بگڑتی صورت حال سے پریشان بادشاہ نے ایک دن سارے عوام کو اپنے محل میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو بادشاہ نے اپنی رعایا کے سامنے اعلان کیا کہ ہمارے ملک میں قحط سالی کی وجہ سے سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ میں جب بھی اپنا وزیریا غلام بھیجتا ہوں تووہ واپس نہیں آتا یا پھر اس کی لاش واپس آتی ہے۔ کیا میری رعایا میں کوئی ایسا بہادر شخص ہے جو سینکڑوں میل دور موجود کنویں سے پانی لائے۔ بادشاہ کی بات پر ایک شخص نے ہاتھ کھڑا کیا جوکہ مسلمان تھا۔ اس نے کہاکہ میری دو شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ میرے اہل خانہ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کی ہے اور دوسری شرط میں واپس آکر بتاؤں گا۔ اس نے بادشاہ سے ایک گھوڑا اور پانی کا مٹکا طلب کیا۔ بادشاہ نے حیرانی سے کہا کہ اس چھوٹے سے مٹکے میں پانی لا کر عوام کی پیاس کیسے ختم کرو گے۔ اس شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ پورا کرے گا۔ وہ مٹکا لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر چل پڑا۔ وہ راستے میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا گیا اور راستے میں جو بلائیں آئیں وہ قرآن مجید کی تلاوت سن کر پیچھے ہٹ گئیں۔ وہ کنویں کے پاس پہنچا اور پانی بھر لیا۔ پھر وہ واپس اپنے ملک روانہ ہوگیا۔ جب وہ محل میں پہنچا تو بادشاہ نے اعلان کیا کہ سارے عوام برتن لے کر آجائیں ۔ اس شخص نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا اور مٹکے سے پانی بھر بھر کر عوام کے کے برتنوں میں انڈیلنے لگا، یوں بسم اللہ کی برکت سے سارے پیاسے لوگ سیراب ہو گئے۔ اس کے بعد اس شخص نے بادشاہ کے سامنے اپنی دوسری شرط رکھی کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ اس طرح بادشاہ اورساری رعایانے اسلام قبول کرلیا۔