دُرِ صبیح (لودھراں)
ایک دن فریحہ بہت پریشان بیٹھی تھی۔ اس کے والد نے اس کی پریشانی کے بارے میں استفسار کیا۔ جس پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی پڑھائی کے معاملات پر ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ اس کے والد جو کہ پیشے کے اعتبار سے ایک باورچی تھے۔ انہوں نے اسے تین کٹورے لانے کو کہا۔ پہلے کٹورے میں انہوں نے انڈا، دوسرے میں آلو اور تیسرے میں کافی کی پھلیاں ڈالیں اور فریحہ سے کہا کہ وہ انہیں چھو کر ان کی ساخت کو محسوس کرے۔ ایسا کر لینے کے بعد انہوں نے تینوں کٹوروں کو پانی سے بھرا اور چولہے پر چڑھا دیا اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔ فریحہ بھی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ پانی ابلنے کے بعد انہوں نے تینوں کٹوروں کو چولہے سے اتار کر پانی کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا اور فریحہ سے کہا کہ وہ تینوں چیزوں کا جائزہ لے کہ ان میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ فریحہ نے اپنے والد کی بات پر عمل کیا۔ اس نے دیکھا کہ انڈے کے باہر کی جھلی کمزور ہو کر ٹوٹ رہی تھی جبکہ وہ اندر سے سخت ہو چکا تھا۔ آلو اندر سے نرم اور اس کا چھلکا اتر رہا تھا۔ ان کے برعکس کافی کی پھلیوں نے ابلتے پانی میں حل ہو کر ایک مسحور کن خوشبو پر مشتمل محلول تیار کر دیا تھا۔ جس پر اس کے والد نے اسے بتایا کہ زندگی میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بالکل اس ابلتے ہوئے پانی کی طرح۔ لیکن جو بات اہمیّت رکھتی ہے وہ یہ کہ ہم ان مسائل پر کس طرح کا ردِعمل دیتے ہیں۔ آیا کہ ہم اپنے اندر آلو اور انڈے کی طرح کی تبدیلی لاتے ہیں یا پھر کافی کی پھلیوں کی طرح مسائل کو حل کر کے اپنی زندگی کو آسان اور خوب صورت بناتے ہیں۔