نازیہ زریں (نبی پور)
ٹیچر ! میری امی کوکیا ہوا ہے؟ سونیا زاروقطاررو رہی تھی اور اس چار سالہ بچی کے ٓانسو زمین پر نہیں میرے دل پر گر رہے تھے۔ میں ان دنوں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول فیض پور میں اپنے تدریسی فرائض سر انجام دے رہی تھی، جب یہ واقعہ پیش آ یا۔سونیا نئی نئی نرسری جماعت میں داخل ہوئی تھی۔ وہ سکول آتے ہوئے بہت روتی اور ماں کو تنگ کرتی۔ اس دن بھی اس کی ماں روتی منہ بسورتی سونیا کو میرے ہاتھ میں دے کر بولی: باجی! اس کا اب آپ ہی خیال رکھو۔ نہیں معلوم تھا کہ یہ اس کے آخری الفاظ ثابت ہوں گے۔ اس کو سکول سے نکلتے چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ سکول کے گیٹ کے باہر شور اٹھا کہ سونیا کی ماں فوت ہو گئی ہے۔ میں دوڑ کر گیٹ کے پاس گئی، دیکھا کہ کچھ مرد چارپائی لا رہے تھے کہ اسے لٹا سکیں۔ پتا چلا کہ جیسے ہی سونیا کی والدہ موٹر سائیکل پر بیٹھی تو اچانک نیچے گر گئی ، سڑک پر پڑی اینٹ اس کی آنکھ کے ساتھ کنپٹی پر لگی جس سے وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئی۔سونیا بھی بھاگ کر میرے پاس آئی اور اب میرے ہاتھوں کو سختی سے تھامے، روتے ہوئے پوچھ رہی تھی کہ امی کو کیا ہوا۔ اب میں اسے کیا کہتی کہ تمھاری جنت اجڑ چکی ہے۔ اس کی ماں کا آنا اور سونیا کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر کہنا کہ اس کا خیال اب آپ ہی رکھو ، اتنے سال گزرنے کے باوجود یہ واقعہ پہلے دن کی طرح میرے دل و دماغ میں تازہ ہے اور جسے میں آج تک نہیں بھول پائی۔ کچھ عرصے بعد سونیا کے والد کراچی منتقل ہو گئے۔ نجانے سونیا اب کہاں ہو گی لیکن آج بھی اس کے آنسو دل پر نقش ہیں۔