عریبہ شاہد( رحیم یار خان)
یہ ایک ایسے الم ناک حادثے کی سچی آپ بیتی ہے جس کے نقوش میں آج بھی اپنے ذہن کے پردے سے مٹا نہیں پائی۔ جو کچھ میری آنکھوں نے دیکھا اسے میں کیسے بھلا سکتی ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جماعت چہارم کی طالبہ تھی۔ یہ ہلکی پھلکی سردیوں کا موسم تھا۔ ایک دن ہماری سماعتوں تک ایک آواز پہنچی۔ یہ آواز اور کسی کی نہیں تھی بلکہ میری والدہ تھیں جو ہمیں ہمارے ہمسائیوں کے گھر شادی کی شرکت کی دعوت کے بارے میں آگاہ کر رہی تھیں۔ چونکہ میں اپنی عمر کا ذکر پہلے ہی کر چکی ہوں کہ میں چہارم جماعت کی طالبہ تھی تو میری ذہنی کیفیت بھی بچوں کی سی تھی۔شادی پر شرکت کی سب سے زیادہ خوشی مجھے تھی کیونکہ شادی شہر سے باہر تھی، اس لیے میں بہت پرجوش تھی ۔میں نے وقت سے پہلے ہی تمام ملبوسات تیار کروالیے تھے۔
بارات کی روانگی کا دن آن پہنچا۔بارات منگل کی رات ساڑھے گیارہ بجے رحیم یار خان سے بورے والا روانہ ہوئی۔ باراتیوں کی بھیڑ چال میں ہماری کار بھی منزل کی روانہ ہوگئی۔کار میں میرے علاوہ میری والدہ،میری ایک سال کی بہن،میرے ماموں اور میرا ماموں زاد موجود تھا۔ ہماری کار رات کی تاریکی میں منزل کی طرف گامزن تھی ۔ ہم سب بہت خوش تھے مگر قسمت کا لکھا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔بدھ کے روز موسم بہت خوش گوار معلوم ہو رہاتھا۔ صبح صادق کا وقت تھا ۔ ہماری کار گہری کھائی سے 15فٹ کی بلندی پر چل رہی تھے۔ڈرائیور نے کار کی رفتار بہت تیز رکھی ہوئی تھی۔ اچانک ہماری کار بے قابو ہو کر کھائی میں جا گری۔ ہم سب کے چہرے جذبات سے عاری ہوگئے ۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے موت کا فرشتہ ہمارے سروں پر منڈلارہا ہےمگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھ سکتا ہے۔ ایک درخت نے ہمیں مزید گہرائی میں گرنے سے روک لیا۔ ہماری کار کا پیٹرول لیک نہیں ہوااور ہم آگ لگنے جیسے نقصان سے بچ گئے۔
بارات کی دوسری گاڑیاں جو ہمارے پیچھے آرہی تھیں ۔ انہوں نے ہمارے گاڑی کو کھائی میں گرتا دیکھ لیا اور وہ سب ہمیں بچانے کے لیے وہاں جمع ہو گئے۔ چونکہ گاڑی اوندھی ہوئی پڑی تھی اس لیے ہمیں گاڑی کے شیشے توڑ کر نکالا گیا۔ اس جان لیوا حادثے میں میرے ماموں کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میرے ماموں زاد، میری بہن،میری والدہ اور مجھے شدید چوٹیں آئیں۔ آج بھی اس خوف ناک حادثے کو یاد کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔