زبیریاں غفور (خانیوال)
یہ 14 مئی 2021ء کی بات ہے۔ میں کراچی سے بس کے سفر کے ذریعے لاہور واپس آرہی تھی۔ تقریباً تمام مسافروں نے چہرے پہ ماسک لگا رکھے تھے۔ ابھی بس چلی ہی نہیں تھی کہ اتنے میں ایک بزرگ جن کی عمر ستر سال کے لگ بھگ تھی ان کی آواز سنائی دی۔ وہ چیخ کر کسی مسافر کو ماسک لگانے کا کہہ رہے تھے۔ اس آدمی نے جواباً غصے سے کہا کہ میں بات کر رہا ہوں۔ بزرگ آدمی نے پھر چیختے ہوئے کہا: بات مت کر اور ماسک لگا۔ تمہیں نہیں پتا کہ ہر طرف کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔
ان دونوں کی کچھ دیر تک یوں ہی بحث و تکرار ہوتی رہی۔ میرے خیال میں بزرگ کی بات غلط نہیں تھی البتہ ان کا انداز گفتگو کچھ غلط تھا۔ مگر سامنے والا شخص اگر بحث کرنے کی بجا ئے ان بزرگ کی بات مان لیتا اور توجہ دلانے پر کہہ دیتا کہ میں بات کر رہا تھا، ابھی ماسک لگا لیتا ہوں تو اس شخص کا کیا جاتا؟ بلکہ اسے یہ سوچنا چاہیئے تھا کہ شاید میرے ماسک نہ لگانے سے بڑے بزرگ کو ڈر لگ رہا ہے، کیو نکہ ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ تر بچے اور بڑی عمر کے ۱فراد کورونا وبا کا شکار ہو سکتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے وہ مجھے ماسک لگانے کا کہہ رہے ہیں۔ یا پھر وہ شخص یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ دوران سفر ماسک لگانا ایک قانون ہےجس کی خلاف ورزی پر بزرگ میری توجہ دلا رہے ہیں لہٰذا مجھے تو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے نہ کہ ان سے بحث میں الجھنا چاہیئے۔
معاشرے کے اندر ایسے افراد کی کمی نہیں جنہیں ان کی غلطیوں پر توجہ دلائی جائے تو بات کو ماننے اور اپنی غلطی سدھارنے کی بجائے الٹا بحث و تکرار پر اتر آتے ہیں اور بالآخر وہ بحث ومباحثہ ایک جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آدمی اگر حق پہ ہے تو ہی اپنے دلائل دےلیکن اگر دلائل دینے کے بعد بھی سامنے والا نہیں مان رہا تو بحث میں ہرگز نہ پڑے اور ممکن ہو تو وہاں سے آگے پیچھے ہو جائے، کیونکہ عقل مند آدمی بے جا بحث مباحثوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔