ہمارے قائد اعظم
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح وہ ذہین فطین اور عظیم قائد ہیں کہ جنہوں نے بر صغیر میں اندھیروں اور مشکلات میں مسلمان قوم کو ایک آزاد مملکت دی۔ جی ہاں! وہ مسلمان قوم جس نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکمرانی کی مگر وقت نے اس قوم کو انگریزوں اور ہندوؤں کے زیر اثر کیا ہوا تھا۔ حضرت قائد اعظم نے مسلمان قوم کو ایک نیا جذبہ، جنون فکر اور جستجو دے کر ایسی قیادت کی کہ دنیا کے نقشے میں پاکستان مسلمانوں کی آزاد مملکت کے طور پر نمایاں ہوا۔ حضرت قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے دوران مختصر عرصے میں مسلمانوں کو نہ صرف انگریزوں سے بلکہ ہندوؤں سے بھی آزادی دلائی۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہم قائد اعظم کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ایک عظیم ملک بنائیں۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر محنت، دیانت، شرافت اور صداقت پر عمل پیرا ہو کر ملک کی ترقی کے لیے دن رات کام کریں۔
قائد اعظم کا ظرف
سن 1943ء میں الہ آباد یونی ورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرانے کے معاملے پر ہندو اور مسلمان طلبہ کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مسلمان طلبہ کا موقف تھا کہ کانگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہ آباد یو نی ورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم ہے، اس لیے اصولی طور پر یہ پرچم یہاں نہیں لہرایا جا سکتا۔ ابھی یہ تنازعہ جاری تھا کہ اسی دوران پنجاب یونی ورسٹی سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک وفد نے قائد اعظم سے ملاقات کی اور ان سے پنجاب یونی ورسٹی ہال پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی درخواست کی۔ قائداعظم نے طلبہ سے کہا: اگر تمہیں اکثریت مل گی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا ایک معیوب حرکت ہے۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیئے۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
٭ پاکستان کا سب سے بڑا قلعہ سندھ کا رانی کوٹ ہے۔
٭ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کا نام خواجہ ناظم الدین ہے۔
٭ پاکستان کے قومی ترانے میں لفظ پاکستان ایک بار آیا ہے۔
٭ پاکستان کا سب سےبڑا ریلوے اسٹیشن روہڑی ہے۔
٭ فیصل مسجد کا ڈیزائن ترکی کے ماہر تعمیرات ویدت دالوکے نے بنایا۔
کاروں سے آلودگی کا نیا پہلو
اسٹین فر ڈیونیورسٹی کے ماہر ماحولیا ت مارک جیکسن نے کیلیفورنیا میں کی گئی ایک تفصیلی تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ گاڑیوں کے دھوئیں میں شامل باریک ذرات جہاں کئی دوسرے ماحولیاتی مسائل کی وجہ بنتے ہیں، وہیں وہ ہوائیں چلنے کی رفتار بھی کم کر دیتے ہیں۔ اگرچہ ان ذرات کے باعث ابر آلود موسم کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے لیکن بارشیں کم ہی برستی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ علاقے جہاں گاڑیوں کی بھر مار ہو، نہ صرف کم تر دھوپ اور بارش کا سامنا کرتے ہیں بلکہ (اگر وہا ں ہوا سے بجلی بنانے کے انتظامات بھی ہوں تو) ان میں ہوائی بجلی سے فائدہ اٹھانے کی استعداد بھی کم ہو جاتی ہے۔ ان ذرات کے باعث کیلیفورنیا میں ہوا کی رفتار 8 فیصد تک کم ہو چکی ہے، جب کہ بارش سے برسنے کی شرح میں بھی 2سے 5فیصد کمی کی ذمہ داری انہی ذرات پر عا ئد ہوتی ہے۔
دعا برکت ہے
دعا خوب صورت زندگی کا راز ہے۔ دعا کی جائے اور دعا لی جائے۔ دعا عبادت ہے۔ دعا سے برکت ہے۔ دعا حفاظت ہے اور دعا سے معافی ہے۔ دعا کرنا کبھی نہ بھولیں کیونکہ دنیا میں سب کو دعا کی ضرورت ہے۔ جو لوگ دوسروں کو اپنی دعاؤں میں شامل کرتے ہیں، خوشیاں سب سے پہلے انہی کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔ دعاؤں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا مگر جب دعائیں رنگ لاتی ہیں تو آپ کی زندگی رنگوں سے بھر جاتی ہے۔ تھوڑی سی عبادت بہت سا صلہ دیتی ہے اور چھوٹی سی دعا عرش بھی ہلا دیتی ہے۔ دعا زبان سے نہیں، دل سے نکلتی ہے کیونکہ دعا ان کی بھی قبول ہوتی ہے جن کی زبان نہیں ہوتی۔ انسان کا مقدر اتنی بار بدلتا ہے جتنی بار وہ خدا سے دعا کرتا ہے۔ اگر مانگنا ہی ہے تو خدا سے مانگو جو زبان پر آنے سے پہلے دعا کی وجہ بنتا ہے۔ مشکل وقت میں ہمیشہ دعا کیجیے کیونکہ جہاں انسان کا حوصلہ ختم ہوتا ہے وہاں سے خدا کی رحمت شروع ہوتی ہے۔
میری کتاب
یہ میری کتاب ہے۔ یہ اردو کی کتاب ہے۔ میں اسے روز پڑھتی ہوں۔ اس کا رنگ سرخ ہے۔ اس میں اچھے اچھے مضمون ہیں۔ مجھے یہ کتاب بہت پسند ہے۔ میں نے اسے بازار سے خرید اہے۔ مجھے اسے پڑھنے کا شوق ہے۔ میں اسے اپنے بستے میں رکھتی ہوں۔ میں اسے حفاظت سے رکھتی ہوں۔
عیب جوئی
آج کل ہمارے معاشرے میں عیب جوئی کی لعنت زور پکڑ رہی ہے۔ اس سے سوائے فتنہ اور فساد میں پڑنے اور دوسرے لوگوں کو اپنا دشمن بنانے کے اور کچھ نہیں ملتا۔ دنیا میں اس کی سزا اس صورت سے ملتی ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے۔ مرد وہ ہے جو اپنے عیبوں کی جستجو میں رہتا ہے۔ اس طور سے اپنی اصلاح ہو سکتی ہے مگر غیروں کی عیب جوئی سے کیا فائدہ؟ مشہور مشل ہے اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ عیب ہر شخص میں ہوتے ہیں اور جن لوگوں میں عیب زیادہ ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ عیب جو ہوتے ہیں۔ انسان کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی خامیوں سے چشم پوشی کرے اور اپنے عیوب کی اصلاح کرے۔